شہادت امام حسینؓ ذبح عظیم
تحریر: میمونہ اسد سروری قادری۔ لاہور
پھر آج عشق کے لیے جاں فِدا کرے کوئی
وفا بھی جُھوم اُٹھے یوں وفا کرے کوئی
ولادت
امامِ عالی مقام حضرت امام حسین‘ ؓ جنہوں نے دین ِ اسلام کو جلابخشی‘ کی ولاد ت با سعادت پانچ شعبان 4 ھ میں ہوئی۔ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے لعاب دہن سے اُنہیں گُھٹی دی اور اُن کے کان میں اذان کہی اور ساتویں دِن آپؓ کا عقیقہ کیا اور آپؓ کے لیے دعا فرمائی۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے محرم الحرام کی 10تاریخ کو ذبح ِعظیم کے خواب کو شہید ِ عظیم کی تعبیر دی اور اپنا وعدہ نبھایا۔
اللہ پاک نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ جس طرح آقائے عالمین علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تمام انبیا اور رسولوں پر، قرآنِ پاک کو تمام کتب پر، اُمت ِ محمدیہ کو تمام اُمتوں پر، ماہِ رمضان کو تمام مہینوں پر، مکہ اور مدینہ کو تمام شہروں پر، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر اسی طرح یومِ عاشورہ کو تمام دنوں پر فضیلت حاصل ہے ۔ عاشورہ کے دِن ہی حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنایا گیا اور زمین پر اُتاراگیا۔ اسی روز حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کو کنارہ ملا اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔
مقامِ حسینؓ
سیّد ناامام حسین ؓ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور سیّدناخدیجۃ الکبریؓ کے نواسے، امیر المومنین امام المتقین حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کے جگرگوشے ہیں۔ نسبی لحاظ سے امام عالی مقام کا رتبہ اتنا بلند ہے کہ کائنات کا کوئی انسان آپؓکا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام امام حسین ؓ کی شان یوں بیان فرماتے ہیں:
٭ ’’حسین ؓ مجھ سے ہے اور میں امام حسینؓ سے ہوں۔ اے اللہ ! جو حسینؓ سے محبت رکھے اُسے محبوب رکھ۔ حسین ؓ نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے‘‘ ۔
حدیث شریف میں ہے :
٭ ’’جسے یہ پسند ہو کہ جنتی مرد کو دیکھے (ایک روایت میں ہے) جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے وہ حسین ؓ بن علیؓ کو دیکھے۔‘‘
٭ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے ’’حضرت امام حسین ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بہت زیادہ مشابہ تھے ۔ ‘‘
٭ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں ’’ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں اکثر اوقات حاضر ہوتا اور دیکھتا کہ حسنؓ و حسینؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے شکم مبارک پر لوٹ پوٹ ہورہے ہوتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرما رہے ہوتے یہ دونوں تو میری اُمت کے پھول ہیں ‘‘۔ ( امامِ نسائی)
٭ حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے ’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’جس نے حسنؓ و حسین ؓ سے محبت کی اس نے در حقیقت مجھ سے محبت کی اور جس نے حسنؓ اور حسینؓ سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا‘‘۔ (ابن ِ ماجہ، نسائی ۔احمد )
٭ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’حسن ؓاور حسین ؓ دونوں جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ ‘‘ ( ترمذی)
٭ حضرت ابو رافعؓ بیان فرماتے ہیں ’’حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صاحبزادی سیّدہ فاطمتہ الزہراؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مرضِ وصال میں اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا ’’یہ آپؐ کے بیٹے ہیں انہیں کچھ وراثت میں عطا فرمائیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’حسنؓ کے لیے میری ثابت قدمی اور سرداری کی وراثت ہے اور حسینؓ کے لیے میری طاقت و سخاوت کی ورا ثت ہے۔ ‘‘ ( امام طبرانی )
یزید ملعون کی بیعت سے انکار
حضرت امام حسین ؓ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اورخاتونِ جنت سیّد ہ فاطمتہ الزہرہ ؓ کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے پیدل چل کر پچیس حج کیے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ بڑی فضیلت کے مالک تھے اور کثرت سے نماز، روزہ، حج، صدقہ اور دیگر امورِ خیرادا فرماتے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد حضرت امام حسین ؓ مدینہ طیبہ میں قیام پذیر رہے پھر اپنے والد ماجد حضرت علی کر م اللہ وجہہ کے ساتھ کوفہ تشریف لے گئے اور ان کے ہمراہ جنگ ِ جمل میں پھر جنگ ِ صفین میں اور پھر خوارج کی جنگ میں شریک ہوئے۔ پھر اپنے بھائی حضرت امام حسنؓ کے ساتھ رہے یہاں تک کہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ حضرت امیر معاویہ ؓکے حق میں خلافت سے دستبردار ہوگئے تو آپ ؓ اپنے برادرِ محترم حضرت امام حسن ؓ کے ساتھ مدینہ طیبہ تشریف لے آئے اور حضرت امیر معاویہ ؓ کے وصال تک وہیں رہے۔ حضرت امیر معاویہ ؓ اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے یزید کی بیعت لے چکے تھے۔ حضرت امام حسینؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عبدا لرحمن بن ابوبکر ؓ کے سوا تمام عالمِ اسلام نے یزید کی بیعت کر لی تھی۔ یزید عیش و عشرت کا دلدادہ سیرو شکار کا شوقین، شریعت اور احکامِ شریعت سے بے بہرہ تھا غرض کہ ہر عیب یزید میں موجود تھا۔ حضرت امیر معاویہ ؓ کی وفات پر رجب 60ھ میں تخت نشین ہوا۔ تخت نشین ہوتے ہی یزیدنے سب سے پہلے اِن بزرگوں سے اپنی بیعت لینے کی جانب توجہ مبذول کی۔ عبدالرحمن بن ابو بکرؓ وفات پاچکے تھے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے جب دیکھا کہ یزیدکی بیعت تمام مسلمانوں نے کر لی ہے تو انہوں نے بھی بیعت کر لی۔ حضرت امام حسینؓ اورحضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی بیعت باقی تھی۔ یزید کو ان دونوں سے بہت خطرہ تھا کیونکہ اسے یقین تھا کہ اگران میں سے کسی ایک نے بھی خلافت کا دعویٰ کر دیا تو حجاز اور عراق کی اکثریت لازماً ان کا ساتھ دے گی۔ اس ضمن میں اس نے مروان بن حکم سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ دونوں کو بلا کر بیعت لو اور اگر ذرا بھی پس و پیش کریں تو ان کو قتل کر دو۔ یزیدنے مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ کو خط لکھا کہ فوراً ان دونوں سے بیعت لی جائے۔ ولید نے حضرت امام حسین ؓ کو بلا بھیجا اور یزید کاخط دکھا کر بیعت کی درخواست کی ۔ آپؓ نے فرمایا ’’ اے ولید! یزید کی بیعت سے میرا صاف انکار ہے۔ میرا وہ سر جو شب و روز بارگاہِ ایزدی میں جھکا رہتا ہے وہ اسلام کے ایک دشمن کے آگے نہیں جھک سکتا اور جس نے فاطمہؓ کا پاک دودھ پیا ہے وہ ایک باطل پرست انسان کی اطاعت نہیں کر سکتا اور حسینؓ آج امانت ِالٰہیہ میں خیانت کرنے والے اور دین کی حدوں کو توڑنے والے یزید کی بیعت کرکے آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے اسلام کی بے حرمتی کا راستہ نہیں کھول سکتا۔‘‘ حضرت امام حسین ؓ یزیدکی بیعت سے انکار کر کے واپس تشریف لے گئے۔ آپؓ کے جانے کے بعد مروان بن حکم نے ولید کو ہر قسم کا لالچ دے کر اور معزول ہو جانے کاخوف دلا کر بہکانے کی سر توڑ کوشش کی مگر ولید ناموسِ رسالت ؐ اور حرمت ِ اہل ِ بیتؓ سے اچھی طرح واقف تھا ۔ اس لئے ولیدنے مروان کو جواب دیا کہ ٹھیک ہے کہ نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یزید کی بیعت کے لیے مجبور کر کے یاپھر قتل کر کے مجھے بہت سا انعام ملے گا مگرمیں ان تمام چیزوں سے بے نیاز ہوں۔ مجھے معزول ہونا تو منظور ہے لیکن امام حسین ؓ کو قتل کر کے دوزخ کی آگ کا ایندھن بننا منظور نہیں۔
حضرت امام حسین ؓ حجرہ اقدس سے باہر تشریف لائے اور نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منبر پاک پر جلوہ افروز ہو گئے اور خطبہ فرمایا’ـ’اے اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھنے والو! میرے نانا کا پاک کلمہ پڑھنے والو اور نظامِ قرآن پر یقین رکھنے والو، مجھے یزید کا خط آیا ہے کہ اس کی امامت اور خلافت کو تسلیم کر لو۔ مگر چونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ فاسق اور فاجر ہے ، زانی اور شرابی ہے اور اسلام کا باغی ہے اور دین کا دشمن ہے اس لیے میں اپنا سب کچھ قربان کر دوں گا مگر اسلام کے باغی کی بیعت نہیں کروں گا ۔ ‘‘ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لعل خطبہ دینے اور اپنافیصلہ سنانے کے بعد اپنے حجرہ پاک میں واپس آگئے اور پھر ایک رات ایسی بھی آئی جب امام حسینؓ نے اپنی پیاری بہن سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ سے کو چ کرنے کے لیے سامان باندھنے کا حکم دے دیا۔ مدینے والوں نے اہل ِ بیت ؓکے اس مقدس قافلے کو مدینے سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا تو ایک کہرام مچ گیا اور حشر برپا ہو گیا۔
واقعہ کر بلا
واقعہ ٔ کربلا پر جس بھی زاویے سے نظر ڈالیں امام عالی مقامؓ سیّد الشہدا کی ذات و صفات میں دین ِ اسلام کی مکمل روح جلوہ گر نظر آتی ہے۔ امام عالی مقام کا کردار بحیثیت طالب ِ مولیٰ، امام الوقت، وارث امانت ِ فقر شاندار و بے مثال روایت کا آئینہ دار ہے۔ تسلیم و رضا، عشق اور راہِ حق کی حفاظت کا ایسا شاندار مظاہرہ نہ چشم ِفلک نے اس سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ قیامت تک دیکھ سکے گا۔ کربلا انسانیت اور شیطانیت کے درمیان ہونے والا ایک ایسامعرکہ ہے جو رہتی دنیا تک تمام طالبانِ مولیٰ کے لیے مشعل ِ راہ ہے ۔ اس سے پہلے کفار اور مسلمانوں کے درمیان معرکے ہو ا کرتے تھے۔ واقعہ کربلا کاسب سے کرب ناک پہلو یہ ہے کہ نواسئہ رسول اکرم ؐ کو رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے امتیوں نے بے دردی سے شہید کیا ۔
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ
کٹا حسینؓ کا سر نعرۂ تکبیر کے ساتھ
واقعہ کربلا کے بعد امانت و خیانت، وفا و جفا، ہار اور جیت، حق اور باطل، خیر اور شرکے اصل مفہوم سے دو عالم روشناس ہوئے اور حضرت امام حسینؓ نے اپنے کردار اور عمل سے ہمت و جرأت، استقامت اور ایثار و قربانی کی داستان رقم کی جبکہ یزید یوں نے عملاً بتا دیاکہ جب دنیاکی محبت دِل کو سیاہ کر دیتی ہے تو انسان میں انسانیت کے تمام اوصاف دم توڑ جاتے ہیں۔ پھر نہ محسنوں کا احسان یاد رہتا ہے اور نہ اللہ کا پیغام۔ واقعہ کربلا کو آج تقریباً 1379 سال گزر چکے ہیں مگر یہ اس قدر المناک، دلخراش ودل فگار سانحہ ہے کہ پوری ملتِ اسلامیہ کے دل سے فراموش نہ ہو سکا۔ اسلامی تاریخ میں دورِ خلافت کے بعد یہ رقت انگیز واقعہ اسلام کی دینی، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونیوالا واقعہ ہے۔
شہادت
شہادت امام حسین ؓ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کئی برس پہلے شہرت پا چکی تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی شہادت کا تذکرہ اُن کے بچپن ہی سے کر دیا تھا۔ حضرت اُمِ فضلؓ بنت ِ حارث ؓ جو کہ حضرت عباس ؓ کی زوجہ اور آنحضرتؐ کی چچی ہیں، اُن سے، اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اور اُم المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے اس بیٹے ( حضرت امام حسینؓ ) کو میرے بعد زمین ِ طِف میں قتل (شہید) کر دیا جائے گا۔‘‘ جبرائیل امین نے اس مقام کی مٹی دی ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مٹی کو اپنے سینہ مبارک سے لگایا، اشک بار ہوئے اور فرمایا ’’اُمِ سلمہ ؓ جب (جس دن) یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا قتل ہو گیا ہے۔ حضرت اُمِ سلمہ ؓ نے اس مٹی کو ایک بوتل میں ڈال لیا اور روزانہ اس کو دیکھتی تھیں۔ جس دن واقعہ کربلا پیش آیا حضرت اُمِ سلمہؓ نے بوتل کو دیکھا تو مٹی خون میں تبدیل ہو گئی تھی۔ آپؓ نے جان لیا کہ آج حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کوشہید کر دیا گیا ہے ۔
یہ بات بھی غورطلب ہے کہ تمام امہات المومنین میں سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو زیادہ عزیز تھیں لیکن مٹی حضرت اُمِ سلمہؓ کو عطا فرمائی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ اس وقت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا ہی زندہ ہوں گی۔
ذبحِ عظیم
تقریباً چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی حضرت امام عالی مقامؓ کی شہادت اور اس کے تذکرہ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہادت امام عالی مقامؓ کا شہرہ بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ یزیدیت ہر طبقہ میں شر اور فتنہ و فساد کی علامت بن گئی ہے ۔
ہر عہد میں خوشبو ہے تری موجِ نفس کی
ہر عصر میں جلوہ ہے ترے رنگ ِ قبا کا
دنیا میں جدا ہے تیرا اندازِ شہادت
جاں دینا تھا گو شیوہ سدا اہلِ وفا کا
اسلامی سال کے 2مہینے پہلا اور آخری یعنی محرم الحرام اور ذوالحجہ دونوں قربانی کے مہینے ہیں یعنی قربانی کی ابتدا و انتہا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور محبوبِ رسولِ کائنات حضرت امام حسین ؓ نے اللہ کی رضا کے سامنے سر ِ تسلیم خم کیا اور دین ِ اسلام کو جلا بخشی۔ وہ قربانی بھی 10تاریخ کو یہ قربانی بھی 10 کو۔ و ہ بھی نبی کے لعل ؑ، یہ بھی نبی کے لعلؓ، وہ صبر ِ عظیم یہ ذبح ِعظیم۔ اُنہوں نے خواب نبھایا اِنہوں نے وعدہ نبھایا۔ وہ کعبہ کو بنانے والے اور یہ کعبہ کو بچانے والے۔
سجدے تو سب نے کئے تیرا نیا انداز ہے
تو نے وہ سجدہ کیا جس پر خدا کو ناز ہے
واقعہ کربلا کے ظہور کے لیے بنیاد صدیوں پہلے ہی ڈال دی گئی جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرا ہیم ؑ کو اپنے لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کا حکم دیا اورجب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے فرزند کو قربانی کے لیے پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو روک دیا اور فرمایا :
وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمِ (الصافات۔107)
ترجمہ: ہم نے ذبح عظیم (ایک بہت بڑی قربانی) سے اس کا فدیہ کر دیا۔
پس وہ قربانی جو ازل سے ہی اللہ پاک کی بارگا ہ میں مقبول و منظور تھی اس قربانی کا نعم البدل قرار دے دی گئی اور اسے ’’ذبحِ عظیم ‘‘ قرار دے کر ازل تاابد اللہ کی راہ میں دی گئی تمام قربانیوں پر عظمت و فوقیت عطا کی گئی۔ قربانی عشق کا اظہار ہے جتنا شدید عشق اتنی بڑی قربانی۔ چنانچہ اگر آپؓ کی قربانی ذبح عظیم ہے تو آپؓ کا عشق بھی عظیم ہے۔ آپؓ کی قربانی نے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کو روک کر بنی اسرائیل کے مد مقابل بنی اسماعیل کی بنیاد ڈالی جس میں آگے چل کر آقائے دو جہان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت پاک ہوئی ۔ اسی لیے آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔ــ‘‘
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی قربانی تسلیم و رضا کا عظیم ترین سبق ہے۔ آپؓ فقر کے بلند مرتبہ پر فائز تھے۔ تسلیم و رضا کے مرتبہ کی جس انتہا پر حضرت امام حسینؓ فائز تھے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فقر ِ محمدی آپؓ کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ آپؓ کے پاس اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ قدرت بھی تھی اور رضائے الٰہی بھی نگاہ میں تھی۔ اگر عطاکردہ قدرت کو اختیارکرتے تو آسمان سے آگ اور پتھر برس پڑتے اور یزید ی لشکر تہس نہس ہو جاتا۔ کربلا کی ریت کو اگر آنکھ کا اشارہ کرتے تو وہ یزیدی شیطانوں کو نگل جاتی۔ دریا جو پیاس بجھانے کے لیے پیاساتھا ارادہ کرتے تو چل کر قدموں میں آجاتا ۔
منہ سے اک بار لگا لیتے جو مولا پانی
دشت غربت میں نہ یوں ٹھوکریں کھاتا پانی
کون کہتا ہے کہ پانی کو ترستے تھے حسینؓ
ان کے ہونٹوں کو ترستا رہا پیاسا پانی
لیکن آپ رضی اللہ عنہٗ نے فقر ِ محمدی پر قائم رہتے ہوئے رضائے الٰہی کے آگے سرجھکا کر رہتی دنیا تک کے آنے والوں کو صبر، وفا، قربانی اور تسلیم و رضا کا عظیم درس دیا۔ نہ صرف خود سرخرو ہوئے بلکہ ہر صادق طالب ِمولیٰ کو سرخرو ہونے کا طریقہ سمجھا گئے اور باطل کے سامنے کسی بھی صورت میں سر نہ جھکانے کا حوصلہ و جرأت عطا کر گئے۔ اگر آپؓ نے حق کی خاطر اس قدر بڑی قربانی نہ دی ہوتی اور باطل کے خلاف اس طرح ڈٹ کر مقابلہ نہ کیا ہوتا تو آج کوئی اللہ کا طالب راہِ حق پر ہمت و استقامت سے نہ چل سکتا۔ پس جو مومن آپؓ کو اپنا امام تسلیم کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ فقر ِ محمدی سے اس طرح فیض یاب ہونے کی آرزو کرے جس طرح آپؓ ہوئے۔
ترقی کی اس دوڑ میں جہاں نفسا نفسی کا عالم ہے اور مادیت پرستی عام ہو چکی ہے اس دور میں سلسلہ سروری قادری کے امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فقر ِ محمدی کا فیض دنیا بھر میں عام کر رہے ہیں۔ پس جو بھی صادق طالب ِ مولیٰ حضرت امام حسینؓ کے نقش ِ قدم پر چلنا چاہتا ہے وہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دست ِ اقدس پر بیعت ہو کر اسم ِ اللہ ذات کا تصور اور سلطان الاذکار ھُو حاصل کرے اور روحانیت کے مراتب و درجات طے کر کے مقامِ تسلیم و رضا اور معرفت ِ الٰہی حاصل کرے۔